Pages

Tuesday, August 15, 2006

Urdu Novel Allao By M.Mubin Part 3

٭
تیسرا باب
معاملہ معمولی تھا مگر ایک عجیب سی بےچینی اس کےاندر سماگئی تھی۔ دوکان سےگاہک غائب ہوگئےتھی۔ اس لیےدوکان کھلی رکھ کر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نےچھ بجےدوکان بند کردی اور رگھو اور راجو سےکہا کہ ”وہ گھر چلےجائے۔“ حالات کا جائزہ لینےکےلیےوہ چوک تک گیا۔ سارا ہنگامہ چوک میں ہی ہوا تھا۔ سڑکوں سےبھیڑ غائب ہوگئی تھی۔ اکادکا لوگ دکھائی دےرہےتھی۔ گھروں کےدروازےبھی بند تھی۔ چوک کےپاس پولس کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی ۔ زیادہ تر دوکانیں بند تھیں۔ ایک دو جگہ جلی چیزوں کا ڈھیر دکھائی دےرہا تھا تو ایک دوجگہ پتھروں اور ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی کانچ پڑی تھیں۔ دونوں جانب سےپتھر اور کانچ کی بوتلوں کاتبادلہ ہوا تھا اس لیےدونوں جانب دونوں چیزوں کا ڈھیر تھا۔ سویرےاسنےچوک کی سجاوٹ دیکھی تھی ۔ وہ اب تبدیل ہوگئی تھی۔ چوک میں ایک دو گجراتی میں لکھےبورڈ اب بھی آویزان تھی۔ وہ گجراتی پڑھ تو نہیں پارہا تھا لیکن ان بورڈوں پر لگےبھگوا جھنڈےاور ان پر لکھی بھگوا تحریریں ان بورڈ پر کیالکھا ہےاس بات کی غمازی کررہےتھیں۔ لوگ دو چار چار کےگروہ میں کھڑےہوکر ایک دوسرےسےباتیں کررہےتھی۔وہ کیا باتیں کررہےتھےاس کےتو کچھ بھی پلےنہیں پڑ رہا تھا۔ اس نےایک دو آدمی سےجاننےکی کوشش بھی کی کہ معاملہ کیا ہی؟اس پر تو انھوں نےاسےگھور کر دیکھا پھر بولی....”ارےجو معاملہ تھا ختم ہوگیا سردارجی۔ اب یہاں بیکار رک کر کوئی فائدہ نہیں۔اپنےاپنےگھروں کو جاو
¿ اسی میں بھلائی ہی۔ یہاں کھڑےرہیں گےتو دوبات ہوگی اور معاملہ اور بڑھ جائےگا۔ “”پاگل لوگ ہیں ۔ارےپاگلوں کےکیا منہ لگا جائے۔“”آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ اب ایسا ہونا بھی نہیں چاہیی۔ “”ارےیہ تو شروعات ہے۔آگےآگےدیکھےہوتا ہےکیا۔“اسےلگا اس کا وہاں رکناعقلمندی کی بات نہیںہی۔ پولس اسےمشتبہ نظروں سےدیکھ رہی ہی۔ وہ وہاں سےواپس دوکان پر چلا آیا۔ اور اوپر اپنےکمرےمیں جاکر رات کا کھانا بنانےلگا۔ دوپہر کا کھانا اب تک پیٹ میں تھا۔ اس لیےرات کےکھانےکی گنجائش تو نہیں تھی۔ پھر بھی اس نےتھوڑا سا کھانا کھالینا کا سوچ لیا۔ رات کھانا کھاکر سانےکےلیےلیٹا تو نیند آنکھوں سےغائب تھی۔ بھلا رات دس بجےاسےنیند آسکتی تھی۔بےچینی سی کروٹیں بدلتا دن بھر کےواقعات کےبارےمیں سوچنےلگا۔ سویرےجو کچھ ہوا ۔اس نےدیکھا ،محسوس کیا وہ ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔لیکن شام کو جو کچھ ہوا اس نےاپنی آنکھوں سےدیکھا اس کےلیےایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ معاملہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اورمعاملہ کافی بڑھ گیا ۔معاملہ اس سےزیادہ بھی بڑھ سکتا تھا ۔اگر بڑھ جاتا تو ۔ یہ سوچ کر اس کےماتھےپر ٹھنڈےپسینےکی بوندیں ابھر آئیں ۔وہ اس کےآگےسوچ نہیں سکتا تھا۔ اسےلگ رہا تھا اگر معاملہ بڑھ جاتا تو اور اسکی دوکان بھی محفوظ نہیں رہی۔ وہ ایک ناوابستہ آدمی تھا۔ دونوں گروہوں سےاس کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن اس کی دوکان لوگوں کی نظر میں تھی۔ اس کی دوکان اس کاروبار دھندہ کئی لوگوں میں کھٹکتا ہی۔ شرپسند اس واقعہ پا اس طرح کےکسی واقعہ کی آڑ میں اسےاور اس کی دوکان کو بھی نشانہ بناسکتےہیں۔اس بات سےاسےاتنی بےچینی ہونےلگی کہ دل میں آیا اس دوکان،کام دھندےکو چھوڑ کر وہ واپس پنجاب چلےجائےاور اپنےچاچا سےکہہ دے....”اب میں اس گاو
¿ں میں نہیں رہ سکتا ۔نہ وہ کام دھندہ کاروبار کرسکتا ہوں۔ تم چاہو تو وہ دوکان فروخت کردو ،کسی کو کرائےپر دےدو۔ اب مجھ سےیہ کام نہیں ہوسکتا۔ “پھر اس نےسر جھٹک دیا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سےاگر وہ گھبراجائےگا تو پھر زندگی جی چکا۔ کروٹیں بدل بدل کر وہ سونےکی کوشش کررہا تھا کہ اچانک اپنےمکان کےنیچےاسےایک موٹر سائیکل رکنےکی آواز سنائی دی۔ ”سردارجی.... سردارجی ....“ایک شناسا آواز کو سن کر اس نےفوراً بستر چھوڑ دیا۔گیلری میں آکر جھانک کر دیکھا تو اس کےاندازےکےمطابق جاوید ہی تھا ۔جو اسےآوازیں دےرہاتھا۔”ارےجاوید بھائی آپ اس وقت....؟“اس نےحیرت سےپوچھا اور نیچےاتر آیا۔ ”ہاں انسٹی ٹیوں کا ایک راو
¿نڈ لگائےآیا تھا ۔سوچا آپ سےملتا چلوں۔“”سب خیریت تو ہےنا....؟“”ہاں خیریت ہی ہی۔ لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔دن میں تو میری کمپیوٹر کلاس کےپاس کچھ نہیں ہوا۔لیکن پھر بھی ڈرلگا ہوا ہےکہ کہیں شرپسند رات میں اسےنقصان پہنچانےکی کوشش نہ کررہی۔ اس لیےسوچتا ہوں آج رات بھر جاگوں ۔اور ایک دو دو گھنٹہ بعد جاکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھتا رہوں۔“”ہاں.... جاوید بھائی ....احتیاط کرنےکی بہت ضرورت ہی۔ ڈر تو مجھےبھی محسوس ہورہا ہی۔“”ارےڈر آپ کو کس بات کا سردارجی۔ “ جاوید ہنسا۔ڈر تو ہم لوگوں کو ہونا چاہیی۔”میرا کاروبار لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا ہی۔“ اس نےکہا۔”ہاں ہےکاروبار ہی تو سارےفساد کی جڑ ہی۔ مفاد پرست اپنےمفاد کےلیےدھرم ، مذہب کی آڑ لیتےہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کھڑا کر کےمعاملہ کو بگاڑنےکی کوشش کرتےرہتےہیں۔اب یہ صرف عید میلاد النبی کی بات ہی نہیں ہی۔ نوراتری میں بھی مسلمانوں کو نوراتری کےاتسو میں شامل ہونےسےروکا جاتا ہی۔ بہت سےمسلمان اس لیےاب اس طرح کےاتسومیں شریک نہیں ہوتےہیں۔ کہاں ذرا سی بات پر معاملہ بگاڑا جائے۔ورنہ کچھ سالوں قبل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ نوراتری میں گربھا کھیلنےوالا کون مسلمان ہےکون ہندو پہچان میں نہیں آتا تھا۔عید میلاد النبی کےکھانےمیں نہ شریک ہونےکی تو پہلےبات کرنےکا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسےآپ کو ڈرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہی۔ آپ سےوہ لوگ ڈریں گے۔صرف ایک بار اپنی کرپان کھول کر گاو
¿ںوالوں کو بتادیجیے۔کوئی آپ کی دوکان کی طرف آنکھ اٹھانےکی جرات بھی نہیں کرےگا۔ “”اب کرپان سےکون ڈرتا ہی۔جاوید بھائی ۔اب بندوق کا زمانہ ہی۔ پستول کےسامنےمیری کرپان کی کیا بساط ۔“وہ بولا۔ایک دو باتیں کرکےجاویدچلا گیا۔ اس سےکہہ گیا کہ”وہ اطمینان سےسوجائی۔“لیکن نیند اسےکہاں آرہی تھی۔ نیند تو آنکھوں سےدور تھی۔ گیلری میں کھڑا وہ سناٹےمیں ڈوبی گاو
¿ں کی عمارتیں،سڑکوں اور گلیوں کو دیکھتا رہا۔ کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنےلگتا۔ پھر اچانک ذہن میں مدھو کا خیال آیا۔ آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سےوہ کالج نہیں گئی تھی۔ اب جب گاو
¿ں میں یہ معاملہ ہوگیا ہےکیا اس کےگھر والےاسےکالج جانےدیں گی....؟ اس کا جواب وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ اس کےگھر والوں نےاگر کل مدھو کو کالج جانےنہیں دیا تو کا وہ مدھو کےدیدارسےمحروم رہےگا۔ اس بات کو سوچ کر اس افسردگی چھاگئی اسےلگا اس لق ودق صحرا میں صرف مدھو ہی ایک ایسا نخلستان جس کےسہارےوہ آگےبڑھنےکی سوچ سکتا ہی۔جس کےتصور سےوہ اس ریگستان کا سفر طےکرسکتا ہی۔ لیکن کتنی عجیب بات ہےمعاملہ صرف دیدار تک اٹکا ہوا ۔ اسےمدھو کےدیدار سےہی ایک ایسا روحانی سکون ملتا ہےجس کو وہ بیان نہیں کرسکتا ۔ساری عمر اس کےسامنےمدھو کا چہرہ رہےاور وہ ساری عمر مدھو کےچہرےکو تاکتا رہی۔ پتہ نہیں اس کےلیےمدھو کےدل میں کس طرح کےجذبات ہی۔اس نےابھی تک اپنی کسی حرکت سےمدھو پراپنی محبت کا اظہار بھی تو نہیں کیاہی۔ اور یہ ضروری نہیں ہےکہ اگر وہ مدھو پر اپنےپیار کا اظہار کردےتو مدھو اس کےپیار کو قبول ہی کرے۔یہ ضروری نہیں کہ اس کےبعد وہ مدھو سےپیار کرنا چھوڑ دی۔ کیونکہ پیار یک طرفہ بھی توہوسکتا ہی۔ممکن نہیں کہ دو طرفہ بھی ہو۔ دنیا میں ایسےہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنےمحبوب سےیک طرفہ پیار کرتےہیں۔ اپنےپیار کا اظہار بھی اس پر کرنہیں پاتی۔ ہر کسی کو اس کےدل کی مراد مل جائےیہ ممکن نہیں ہر کسی کو اس کی چاہت اس کا پیار مل جائےیہ ممکن نہیں ہی۔ اس کےگاو
¿ں میں کئی لڑکیاں اس سےپیار کرتی تھیں۔لیکن وہ ان سےپیار نہیں کرتا تھا۔ کئی لڑکیوں نےاس سےاپنےپیار کا اظہار کیاتھا اور کہا تھا ”اگر وہ انھیں نہیں ملا تو وہ اپنی جان دےدےگی۔ “ ان کےپیار کےاظہار کےباوجود اس کا دل نہیں پگھلا تھا۔ اس کا دل میں ان کےلیےپیار کا جذبہ نہیں جاگا تھا۔ نہ اس دل میں ان کےلیےپیار کا جذبہ جاگا تھا نہ انھوں نےاس کےلیےاپنی جان دی تھیں۔ ان کی شادی ہوگئیں تو چپ چاپ اپنےشوہروں کےپاس چلی گئیں۔اس طرح کی ہزاروں باتیں گیلری میں کھڑا بہت دیر تک سوچتا رہا۔ جب اس کےقدم بوجھل ہونےلگےاور آنکھوں میں نیند سمانےلگی تو چپ چاپ اندر آیا اور بستر پر لیٹ کر بےخبر سوگیا۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477






 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Part 3 and Powered by Blogger.